the etemaad urdu daily news
آیت شریف حدیث شریف وقت نماز
etemaad live tv watch now

ای پیپر

انگلش ویکلی

To Advertise Here
Please Contact
editor@etemaaddaily.com

اوپینین پول

کیا آپ کو لگتا ہے کہ دیویندر فڑنویس مہاراشٹر کے اگلے وزیر اعلیٰ ہوں گے؟

جی ہاں
نہیں
کہہ نہیں سکتے

نایاب حسن
سادہ زبان،شیریں اسلوب،ستھرے الفاظ اورمسکراتے مکھڑے کے ساتھ اشعارکے ذریعے جب ندافاضلی زندگی کے حقائق بیان کرتے تھے،توکسی بھی محفل،مجمع اورمجلس کی تمام تر نگاہیں ان کی جانب ہوتیں،اذہان پورے دھیان سے ان کی طرف متوجہ ہوتے،سماعتیںندافاضلی کی شاعری میں گھلتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں،وہ بڑے معصومانہ اندازمیں بڑی بڑی باتیں کہہ جاتے تھے،ان کے یہاں لفظوں کے دروبست سے زیادہ معنیٰ کی گہرائی و گیرائی اور اثرآفرینی پر زور ہوتاتھا،وہ ہندوستان کے مشترکہ ماحول و تہذیب کی پیداوارتھے ،پھرابتداء اً ان کی عملی سرگرمیوںکی جولان گاہ ہندوستانی فلمیں رہیں؛چنانچہ انھوںنے اپنے اشعار میںاُس ہندوستانی زبان کوبرتا،جسے ملک کا ہر شہری سمجھتا، بولتا، لکھتا اور پڑھتا ہے؛ چنانچہ ندافاضلی کی شاعری میں خالص فارسی و عربی الفاظ ، تراکیب و تعبیرات نسبتاً کم استعمال ہوئے،اُنھوںنے اپنی شاعری میں اردوکے انتہائی سادہ الفاظ کے علاوہ ہندی الفاظ بھی بکثرت استعمال کیے اورساری دنیامیںاپنی شاعرانہ نابغیت کی دھاک بٹھادی،ندافاضلی اردوکے اُن گنے چنے شاعروںمیںسے تھے،جن کے سیکڑوںاشعارضرب المثل بن چکے ہیںاورحسبِ موقع ومحل خودبخودوہ اشعاروردِزبان ہوجاتے ہیں،وہ اِس وقت اردوکے ایک رجحان ساز،پیامی شاعر تھے،ان کی شاعری میں مقصدیت تھی ،معنویت تھی،انسانیت کے لیے درسِ امن ووفاتھا،زندگی کے حقائق وحادثات کاسامناکرنے اور ان سے مقابلہ کرنے کی دعوت تھی،حسن وعشق کے معاملات اوررومان انگیز خیالات سے زیادہ سماج کو درپیش مسائل ،مشکلات اورآئے دن رونما ہونے والے تکلیف حادثات ان کی طبیعت پر زیادہ اثر انداز ہوتے تھے،تجر بات کے تسلسل اور پیہم مشاہدات نے دنیاکے ظاہر و باطن کوان پرروشن کردیاتھا؛اس لیے وہ جب شعر لکھتے،کہتے توہر سننے والے کوایسالگتاگویانداصاحب ان کے من کی بات کہہ رہے ہیں،واقعیت پسندی اور حقیقت بیانی اردوشاعری کاعمومی مزاج نہیں ہے،دوسرے یہ کہ یہاں تغزل کا ایک خاص مفہوم متعین کرلیاگیاہے اور اسی کے محدوددائروںمیں مقیدرہ کرطبع آزمائی کی جاتی رہی ہے،یہ نداصاحب کے شاعرانہ مقام کا عروج اور ان کے ذہن و شعورکی درّاکی ہے کہ انھوں نے اپنی پوری زندگی میں اردوشاعری کوجوکچھ دیا،اس میں صرف مغزہے،کہیں آپ کوچھلکانظرنہیں آئے گا۔
ندافاضلی کا اصل نام مقتدیٰ حسن ہے،گوالیارمیں۱۲؍اکتوبر۱۹۳۸ء کوپیدایش ہوئی،دہلی میں تعلیم حاصل کی اورممبئی کواپنی عملی سرگرمیوںکے لیے منتخب کیا اور پھر پوری زندگی وہیں گزاری،ان کے والد بھی ایک شاعر تھے اور ۱۹۶۰ء میں فرقہ وارانہ فسادات کے دوران مارے گئے،جس کے بعد ان کے بقیہ افرادِ خانہ پاکستان منتقل ہوگئے ،مگر ندافاضلی نے ہندوستان میں قیام کوترجیح دیا ،انھوںنے اپنے کریئرکا آغاز فلمی دنیاسے کیااورپھراپنی شاعری اورنغموں کے ذریعے ایک خاص مقام حاصل کرلیا،ابتداکمال امروہوی کی فلم ’رضیہ سلطانہ‘سے کی جس کے گانے اصلاً معروف شاعرجاںنثاراختر لکھ رہے تھے،مگر اچانک ان کے انتقال کے بعدکمال امروہوی نے نداصاحب سے رابطہ کیااورانھوں نے اس فلم کے لیے دونغمے لکھے،اسی کے بعدفلمی دنیامیں نداصاحب کی مقبولیت کا دورشروع ہوا اور پھرپے درپے انھوں نے بہت سارے مقبول و معروف نغمے تحریر کیے، معروف گلوکارہ کویتاسبرامینم،لتامنگیشکراورغزل گوجگجیت سنگھ وغیرہ کی پر کشش آوازوںنے ندافاضلی کی غزلوںاور گیتوںکومقبولیت و شہرت کی نوبہ نو شناخت دلائی اوران کے نغموںکے سادہ مگر معنیٰ خیزالفاظ بچہ بچہ کی زبان پر جاری ہوگئے،انھوں نے قیامِ ممبئی کے ابتدائی دورمیںفلمی رسالے’’دھرم یگ‘‘اور’’بلٹز‘‘کے لیے بھی لکھا،۶۰ء کی دہائی میں متعددشعراء پر تنقیدی مضامین لکھے،جو’’ملاقاتیں‘‘کے نام سے شائع ہوئے،ادبی و شعری خدمات کے لیے انھیں ۱۹۹۸ء میںساہتیہ اکادمی ایوارڈ،۲۰۱۳ء میں پدم شری ایوارڈاور۲۰۰۳ء میںفلم ’’سُر‘‘میں بہترین نغمہ نگاری کے لیے سٹاراسکرین ایوارڈاوراسی فلم کے نغمہ ’’آبھی جا۔۔۔۔‘‘کے لیے بالی ووڈ مووی ایوارڈ سے نوازاگیا،ان کے متعددشعری مجموعے طبع ہوئے،جن میں’لفظوں کاپل‘،مورناچ‘،’آنکھ اور خواب کے درمیان‘،’سفرمیں دھوپ توہوگی‘،’کھویاہواساکچھ‘ ،’دنیاایک کھلوناہے‘ اور’شہرمیرے ساتھ چل تو‘،شامل ہیں۔ہندی میں ان کی منتخب نظموںاور غزلوںکاایک مجموعہ کنہیالال نندن نے ’ندافاضلی:غزلیں،نظمیں،شعراور جیونی‘ کے نام سے مرتب کیاہے۔ان کے علاوہ ندافاضلی نے اپنی سوانحِ زندگی بھی تحریر کی ،جو’دیواروںکے باہر‘کے نام سے شائع ہوئی ہے،ناول نما اس کتاب کی زبان سے لے کر اسلوب و اندازِبیان تک میں ایک خاص قسم کی کشش ،دل کشی اورسحرطرازی ہے،یہ کتاب ندافاضلی کی ذاتی زندگی سے روبروکرانے کے علاوہ اپنے گھر،خاندان،معاشرہ،ملک ، دنیا،مذہب اور کاروربارِ حیات کودیکھنے کے اُن کے منفردطوروطرزسے آگاہ کراتی ہے۔اِدھرکئی سال سے ندا صاحب بی بی سی ہندی کے لیے’اندازِبیاں‘کے عنوان سے ادبی وسیاسی موضوعات پرکالم بھی لکھ رہے تھے۔ 
شاعرانہ مزاج و نہادکی ساخت میں ندافاضلی غالب اور میرتقی میر سے متاثرہوئے،اس کے علاوہ میرااور کبیرکی سادہ گوئی نے بھی ان پر خاصااثرڈالا،انگریزی ادب پربھی ان کی گرفت تھی اور انھوں نے کئی بڑے انگلش شعراکوبھی پڑھاتھا،سواُن کا ذہنی،فکری اور نظریاتی اُفق بہت ہی وسیع و عریض تھا۔ہندوستان کے معاشرتی،فرقہ وارانہ وسیاسی اتھل پتھل اور پیہم اُتارچڑھاؤنے بھی ان کی شاعری پرخاصااثرڈالا؛چنانچہ اُنھوں نے انسان دوستی اور پیامِ امن کی اشاعت و ترویج کواپنی شاعری کامقصدونصب العین بنالیا۔ان کے شعری ذخیرے کا بیشترحصہ اسی پہلوکااحاطہ کرتاہے،ان کے ہندی کے دوہوںمیں بھی انسانیت کا درس،سماجی خرابیوںپرقابوپانے،انسانی معاشرے میں اچھائیوں اور حسنِ اخلاق و کردارکوفروغ دینے اورانسان کو ہندویامسلمان ہونے کی بجاے انسان ہونے کی حیثیت سے برتنے کی تلقین ہے۔بچہ،ماں ، دنیااورزندگی کووہ ایک منفرداورمختلف نگاہ سے دیکھتے ہیں،اس حوالے سے کہے گئے ان کے اشعارہمارے بچپن کوہماری نگاہوںکے سامنے لاتے اور اُن دنوںکی یاد دلاتے ہیں،جب ایک بچہ انتہائی معصومیت کے ساتھ،زندگی کے تمام ترنشیب و فرازاور حادثات و سانحات سے ناآشناوبے نیازاپنی ایک محدود،مگرپر کیف دنیامیں مست و مگن رہتاہے،وہ دنیاماںکی گودسے شروع ہوتی اورچھوٹے ،بڑے،رنگ برنگے کھلونوںسے ہوتے ہوئے پھر ماں کی گودمیں لوٹ جاتی ہے،نداصاحب کہتے ہیں:
گھاس پر کھیلتاہے اِک بچہ
پاس ماں بیٹھی مسکراتی ہے
مجھ کوحیرت ہے جانے کیوںدنیا
کعبہ وسومنات جاتی ہے!
ان دوشعروںمیںانتہائی جامعیت کے ساتھ بچپن کی خوشیوںاورسرشاریوںکوسمیٹاگیاہے، کعبہ و سومنات جانے پرندافاضلی کااظہارِ حیرت محلِ نظر ہو سکتا ہے ،مگرجس سیاق میں یہ اظہارکیاگیاہے اگر اُسے اُسی تک محدودرکھاجائے ،توشعرسے بخوبی طورپر لطف لیاجاسکتاہے۔ان کا ایک مشہورومعروف شعرہے:
گھرسے مسجدہے بہت دورچلویوںکرلیں
کسی روتے ہوئے بچے کوہنسایاجائے
اس شعر میں بھی بچپن اور بچے سے بے پناہ اُنسیت اور محبت کوایک مخصوص پیرایے میں بیان کیاگیاہے،گوکہ اس شعرکے ظاہری پیکرپربھی پراشکال کی گنجایش ہے اورمیں نے کہیں پڑھاکہ ایک بار جب ندافاضلی پاکستان مشاعرے میں شرکت کے لیے گئے،تووہاںکچھ لوگوں نے اُنھیں گھیرلیااورکہنے لگے کہ مسجداگردورہے،توکیاصرف بچے کوہنسادیناکافی ہے اور نمازپڑھنے کی ضرورت نہیں،آپ کایہ شعریوںہے اوریوںہے،بعضوںنے اس کے جواب یاردمیں تُک بندی بھی کی؛لیکن اگرشعرکوصرف اُس مفہوم میں سمجھاجائے،جوشاعرکا مدعاہے،توبات بڑی قیمتی اور دل کولگنے والی ہے؛کیوںکہ



انھوںنے مسجدجانے سے روکانہیںہے۔
اسی طرح ماںپرمعاصراردوشاعری میں کئی شعرانے اچھی اور خوب صورت شاعری کی ہے،مگر اس حوالے سے بھی ندافاضلی کاجواب نہیں ہے،ماں کاجوتصورہمارے سامنے نداصاحب پیش کرتے ہیں ،اُس میںماںکی پوِترتاہے،پاکیزگی ہے،قداست ہے،عظمت وبلندگیِ شان ہے اور اس سب کے ساتھ ساتھ ایک خاص قسم کی شوخی بھی ہے،چنچل پن بھی ہے،نداکی شاعری میں جس ماںکاذکرآتاہے،وہ ہم سب کی ماںہے:
بیسن کی سوندھی روٹی پرکھٹی چٹنی جیسی ماں
یادآتی ہے چوکا،باسن،چمٹا،پھکنی جیسی ماں
بانس کی کھری کھاٹ کے اوپرہرآہٹ پر کان دھرے
آدھی سوئی ،آدھی جاگی، تھکی دوپہری جیسی ماں
بیوی،بیٹی،بہن ،پڑوسن تھوڑی تھوڑی سی سب میں
دن بھراِک رسی کے اوپرچلتی نٹنی جیسی ماں
ندافاضلی کی شاعری میں دنیاکے بھی مختلف رنگ روپ ملتے ہیںاورہرایک میں ایک خاص حقیقت افروز معنویت ہے :
دنیاجسے کہتے ہیںجادوکاکھلوناہے
مل جائے تومٹی ہے،کھوجائے توسوناہے

اِک مسافرکے سفرجیسی ہے دنیا
کوئی جلدی میں ،کوئی دیرسے جانے والا

ایک ہی دھرتی ہم سب کا گھر،جتناتیرا،اُتنامیرا
دکھ سکھ کا یہ جنتر منترجتناتیرا،اُتنامیرا
خوشیوںکے بٹوارے تک ہی اونچے نیچے،آگے پیچھے
دنیاکے مٹ جانے کا ڈر،جتناتیرا،اُتنامیرا

جتنی بری کہی جاتی ہے اُتنی بری نہیں ہے دنیا
بچوںکے اسکول میں شاید تم سے ملی نہیں ہے دنیا
چارگھروںکے ایک محلے کے باہر بھی ہے آبادی
جیسی تمھیں دکھائی دی ہے،سب کی وہی نہیں ہے دنیا
گھرمیں ہی مت اسے سجاؤ،اِدھراُدھربھی لے جاؤ
یوںلگتاہے جیسے تم سے اب تک کھلی نہیں ہے دنیا
بھاگ رہی ہے گیندکے پیچھے،جاگ رہی ہے چاندکے نیچے
شوربھرے کالے نعروںسے اب تک ڈری نہیں ہے دنیا
عمل،حقیقت اور واقعیت کے پس منظرمیں انسانی زندگی جہدوسعی سے عبارت ہے،کامیابیوں اور کامرانیوں کی واحد کلیدانسان کی ذاتی ہمت،حوصلے اور قوتِ ارادی ہیں؛یہی وجہ ہے کہ بسااوقات انتہائی تنومندوتواناانسان بھی اپنی کم ہمتی اور بے حوصلگی کی بناپر زندگی سے مایوس ہوجاتا،جبکہ دوسری طرف بہت سے انتہائی نحیف و ناتواں دِکھنے والے لوگ بھی محض اپنی جواںحوصلگی ،خود اعتمادی اور عالی ہمتی کی بدولت ظفرمندیوںاورفتح یابیوںکی بڑی سے بڑی منزل سرکرلیتے ہیں،حادثات بعض لوگوںکی کمرِہمت توڑدیتے ہیں،جبکہ کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں،جوانہی حادثات سے گزرکر اپنی سعادت و فتح مندی کی نئی راہیں نکال لیتے ہیں،ندافاضلی ہمیں زندگی میں ہمیشہ مثبت سوچنے ،ہمت ورانہ اندازسے زندگی کوبرتنے اور جہدِ مسلسل و عملِ پیہم کی تلقین کرتے ہیں، اس حوالے سے انھوں نے جواشعارکہے ہیں،ان میں بلاکاجوش،خلوص اور صداقت پائے جاتے ہیں،یہ اشعار مثلِ گہرہاے نایاب ہیں:
ہرگھڑی خودسے اُلجھناہے مقدرمیرا
میں ہی کشتی ہوں،مجھی میں ہے سمندرمیرا

خودسے ملنے کا چلن عام نہیں ہے ورنہ
اپنے اندرہی چھپاہوتاہے رستہ اپنا

کٹھ پتلی ہے یا جیون ہے جیتے جاؤ،سوچومت
سوچ سے ہی ساری الجھن ہے،جیتے جاؤ،سوچومت

سورج کے اردگردبھٹکنے سے فائدہ
دریاہواہے گم تو سمندرتلاش کر
رہتانہیں ہے کچھ بھی یہاں ایک ساسدا
دروازہ گھرکاکھول کے پھر گھرتلاش کر
کوشش بھی کر،امیدبھی رکھ،راستہ بھی چن
پھراس کے بعدتھوڑامقدرتلاش کر

یقین چاندپہ،سورج پہ اعتباربھی رکھ
مگرنگاہ میں تھوڑاساانتظاربھی رکھ
خداکے ہاتھ میں مت سونپ سارے کاموںکو
بدلتے وقت پہ کچھ اپنااختیاربھی رکھ
یہ ہی لہوہے شہادت،یہ ہی لہوپانی
خزاںنصیب سہی،ذہن میں بہاربھی رکھ

دھوپ میں نکلو،گھٹاؤںمیں نہاکردیکھو
زندگی کیاہے کتابوںکوہٹاکردیکھو

سفرمیں دھوپ توہوگی جوچل سکوتوچلو
سبھی ہیں بھیڑمیں تم بھی نکل سکوتوچلو
کسی کے واسطے راہیں کہاں بدلتی ہیں
تم اپنے آپ کوخودہی بدل سکوتوچلو
یہاں کسی کوکوئی راستہ نہیں دیتا
مجھے گراکے اگرتم سنبھل سکوتوچلو
ہندوستان و پاکستان کی صورتِ حال اور دونوںملکوںمیں پائے جانے ایسے عناصربھی ندافاضلی کی شاعری کامستقل موضوع رہے،جواپنی خودغرضیوں، سیاسی مفادپرستیوں اورذاتی منفعتوںکے زیرِاثرماحول میں زہرگھولتے،انسانوںسے ان کا حقِ زیست چھینتے اور مختلف ناموںسے ان پر اپنی آمریت تھوپناچاہتے ہیں،اُنھوںنے دونوںملکوںکوسامنے رکھ کرہی اپنے یہ تاریخی اشعارکہے تھے:
انسان میں حیوان یہاں بھی ہے وہاںبھی
اللہ نگہبان یہاں بھی ہے وہاںبھی
خوںخواردرندوںکے فقط نام الگ ہیں
شہروںمیں بیابان یہاں بھی ہے وہاںبھی
ہندوبھی مزے میں ہیں،مسلماںبھی مزے میں
انسان پریشان یہاں بھی ہے وہاںبھی
اورگزشتہ سال معروف کنڑادیب و اسکالرایم ایم کلبرگی کے بہیمانہ قتل سے متاثرہوکرندافاضلی نے ایک بہت ہی اثرانگیزنظم کہی تھی،ہندوستان کے موجودہ عدمِ برداشت والے ماحول میں وہ نظم ہر اُس انسان،طبقے اور فرقے کی بے چارگی و بے بسی کا استعارہ ہے،جواس ملک میں پائے جانے والے مٹھی بھرفسطائیت زدہ عناصرکی زدمیں ہیں:
اپنی طرح سے سوچنے والا
اپنی طرح سے بولنے والا
اپنی طرح سے اپنے گھرکے دروازوںکوکھولنے والا
ٹی وی پر اپنے چہرے سے دِکھنے والا
پاکستان میں مسلم جیسا
ہندوستان میں اب ہندوبھی
اپنے دیس کے ہتیاروںکے گھیرے میں ہے
ہرآزادی پہرے میں ہے
ایک ہی جیسا ہر بھوجن ہو
ایک ہی جیسا ہرآنگن ہو
ایک ہی جیسا ہر چنتن ہو
حکم ہے مٹھی بھرلوگوںکا
وہ ہوںجیسے
سب ہوںویسے
۸؍فروری۲۰۱۶ء کوہمارے درمیان سے صرف ندافاضلی رخصت نہیں ہوئے؛بلکہ ان کے ساتھ ساتھ بامقصد،بے باک،حق بیاں،فکرانگیز ، معنی خیز و بصیرت افروزشاعری کی ایک تاریخ ، ایک عہدتمام ہوا ہے، اب ہماری فکریہ ہونی چاہیے کہ اپنی اس تاریخ کواس کے اعلیٰ ترمقام و مرتبے کے ساتھ نہ صرف محفوظ رکھیں؛بلکہ اس کی قدرکریں،اس کے پیغام ودرسِ امن وانسانیت کواپنے قول وعمل کے ذریعے عام کریںاوراپنے ذہنوںمیںنداصاحب کی اس وصیت کی قندیل بھی روشن رکھیںکہ:
جانے والوںسے رابطہ رکھنا
دوستورسمِ فاتحہ رکھنا!
اس پوسٹ کے لئے کوئی تبصرہ نہیں ہے.
تبصرہ کیجئے
نام:
ای میل:
تبصرہ:
بتایا گیا کوڈ داخل کرے:


Can't read the image? click here to refresh
http://st-josephs.in/
https://www.owaisihospital.com/
https://www.darussalambank.com

موسم کا حال

حیدرآباد

etemaad rishtey - a muslim matrimony
© 2024 Etemaad Urdu Daily, All Rights Reserved.